Skip to main content

بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات

 بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات

خورشید امام

-----------------------------------------------------------------

مذہبی کتابوں کا ترجمہ ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، جو مختلف قوموں کو ایک دوسرے کو سمجھنے یا حکومت چلانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ بھارت میں، مسلم حکمرانوں نے ہندو مذہبی کتابوں کو فارسی اور بعد میں اردو میں ترجمہ کروایا۔ ان تراجم پر الزام لگایا گیا کہ ان میں غلط بیانی کرکے ہندو مذہب کے عقائد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ مضمون ان الزامات کی حقیقت کو جانچتا ہے اور تاریخی حقائق کے ذریعے ثابت کرتا ہے کہ یہ تراجم بدنیتی پر مبنی نہیں تھے اور ہندو مذہب کی بنیادوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔


مذہبی کتابوں کے ترجمے کی تاریخی مثالیں

1. عباسی خلافت: یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ
آٹھویں سے دسویں صدی کے دوران عباسی خلافت نے یونانی فلسفیانہ اور سائنسی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کروایا۔ بغداد کے "ہاؤس آف وزڈم" میں دانشوروں نے ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے کاموں کا ترجمہ کیا۔ مقصد علم کا فروغ تھا، نہ کہ مسخ کرنا۔

2. رومن سلطنت: یونانی سے لاطینی میں ترجمہ
رومی سلطنت نے یونان پر فتح کے بعد یونانی مذہبی، فلسفیانہ اور علمی کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ کیا۔ یہ تراجم رومی ثقافت کو اپنانے کے لیے کیے گئے تھے۔

3. چین میں بدھ مت کی کتابوں کا ترجمہ
پہلی سے چھٹی صدی کے دوران بدھ مت بھارت سے چین پہنچا۔ اس دوران بدھ مت کی کتابوں کا چینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ترجمے کے باوجود بدھ مت کے بنیادی اصول محفوظ رہے اور یہ پورے مشرقی ایشیا میں پھیلا۔

4. عیسائی بائبل کا مختلف زبانوں میں ترجمہ
یورپ میں پروٹسٹنٹ تحریک کے دوران مارٹن لوتھر نے بائبل کا لاطینی سے جرمن میں ترجمہ کیا۔ مقصد عوام کو مذہبی تعلیمات کے قریب لانا تھا، نہ کہ غلط بیانی کرنا۔

یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ تراجم عموماً علم کو بڑھانے اور مختلف تہذیبوں کو قریب لانے کے لیے کیے جاتے تھے، نہ کہ گمراہ کرنے کے لیے۔


ہندو مذہبی کتابوں کا فارسی اور اردو میں ترجمہ

1. رزم نامہ: مہابھارت کا فارسی ترجمہ
بادشاہ اکبر نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ کروایا، جسے رزم نامہ کہا گیا۔ یہ ترجمہ ہندو پنڈتوں اور مسلم علما کے تعاون سے ہوا۔ اکبر کا مقصد مختلف مذاہب کو سمجھنا اور اپنی رعایا کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔

  • ترجمے میں مذہب (فرض) اور اخلاقیات جیسے عالمی موضوعات پر زور دیا گیا۔
  • ہندو علماء کی موجودگی نے ترجمے کو درست بنانے میں مدد دی۔

2. دارا شکوہ کا اوپنشد کا ترجمہ
شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے اوپنشد کا فارسی میں ترجمہ کیا، جسے سرِ اکبر (عظیم راز) کہا گیا۔ انہوں نے اوپنشد کی تعریف کی اور ہندو مذہب اور تصوف کے درمیان مماثلت کو سمجھنے کی کوشش کی۔

  • دارا شکوہ نے اوپنشد کو ہندو فلسفے اور اسلامی تصوف کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھا۔
  • یہ کام احترام کی علامت تھا، نہ کہ مسخ کرنے کی۔

3. اکبر کا ہندو کتابوں کو محفوظ کرنا
اکبر نے رامائن اور اَتھر وید جیسی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ ان تراجم کی نگرانی ہندو علما نے کی۔ اکبر کا مقصد مذہبی ہم آہنگی اور بہتر حکمرانی تھا۔


غلط ترجمہ کیوں ممکن نہیں تھا؟

1. تعاون پر مبنی عمل
تراجم میں ہندو اور مسلم علما نے مل کر کام کیا، جس کی وجہ سے جان بوجھ کر مسخ کرنے کے امکانات کم ہو گئے۔

2. محدود قارئین
یہ تراجم فارسی بولنے والے اشرافیہ اور تعلیم یافتہ ہندوؤں کے لیے تھے۔ زیادہ تر ہندو اپنے مذہب کو زبانی روایات اور سنسکرت کتابوں کے ذریعے سمجھتے تھے، ان پر ان تراجم کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

3. ہندو روایات کی مضبوطی
ہندو مذہب اپنی زبانی روایات اور سنسکرت کتابوں پر مبنی تھا۔ یہ یقینی بنایا گیا کہ مذہب کے بنیادی اصول محفوظ رہیں۔

4. فلسفیانہ پیچیدگی
وید اور اوپنشد جیسی کتابیں فلسفیانہ طور پر پیچیدہ ہیں۔ ان کا ترجمہ مہارت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر کوئی غلطی ہوئی بھی، تو وہ زبان کی پیچیدگی کی وجہ سے تھی، بدنیتی کی وجہ سے نہیں۔


الزامات کا جواب

1. مسخ کے ثبوت نہیں
تاریخ میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندو مذہبی کتابوں کو جان بوجھ کر مسخ کیا ہو۔ دارا شکوہ جیسے لوگوں نے ہندو فلسفے کی تعریف کی اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی۔

2. ہندو عقائد کی مضبوطی
ہندو مذہب نے اپنی وسعت اور لچک کی وجہ سے بیرونی اثرات کے باوجود ترقی کی۔ مسخ کے الزامات زیادہ تر جدید دور کے خیالات ہیں، نہ کہ تاریخی حقیقت۔

3. ترجمہ عالمی سیاق و سباق میں
دیگر تہذیبوں میں تراجم علم کے تبادلے اور ثقافتی ہم آہنگی کے ذرائع تھے۔ بھارت میں مسلم حکمرانوں پر لگائے گئے الزامات کو بھی اسی تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔


غلط تراجم ہندو علماء سے بھی ہوئے ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ غلط ترجمے صرف مسلمانوں کی جانب سے نہیں بلکہ ہندو علماء کے کاموں میں بھی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گوشت خوری سے متعلق ہندو کتابوں کی غلط تشریحات کی گئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


نتیجہ

مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندو مذہبی کتابوں کا فارسی اور اردو میں ترجمہ مختلف تہذیبوں کو سمجھنے اور قریب لانے کا ایک عمل تھا۔ یہ تراجم تعاون پر مبنی تھے اور ان کا ہندو مذہبی روایات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔

تاریخ کے شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ تراجم کا مقصد تہذیبی ہم آہنگی اور علم کا فروغ تھا۔ ان کوششوں کو توازن کے ساتھ دیکھنے پر مختلف مذاہب کے درمیان عزت اور تعاون کی شاندار روایت کا انکشاف ہوتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام

  بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام خورشید امام ********************************************* آج مسلم دنیا بدترین حالات سے گزر رہی ہے — انتشار، بے بسی، مایوسی اور مسلسل تکلیفیں۔ بھارت سے لے کر فلسطین تک مسلمان پریشان حال ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ؟ بے اختیاری ۔ دنیا میں جہاں طاقت ہی سب کچھ ہے، ہم پیچھے رہ گئے۔ جب طاقت حاصل کرنے کا وقت تھا، ہم دوسری باتوں میں الجھے رہے۔ تاریخ اسلام کی تین بڑی غلطیاں یہی تھیں: حدیث کو قرآن پر ترجیح دینا دین و دنیا کو الگ کرنا علماء کی حد سے زیادہ عقیدت ہم نے بار بار سنا: "تین قسم کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں..." لیکن کیا اربوں مسلمانوں کی دعاؤں نے غزہ کا قتل عام روک لیا؟ سوچیں! شاید ہمیں اسلام کا غلط نظریہ سکھایا گیا۔ یہ غلطیاں صدیوں سے ہمیں اندر سے کمزور کرتی آئی ہیں۔ اور آج بھی کچھ علماء انہی غیر اہم باتوں میں مصروف ہیں — خلفاء کی رینکنگ، ظاہری لباس، چھوٹے فقہی اختلافات — جب کہ امت کا حال برباد ہے۔ دوسری طرف کچھ "روشن خیال" افراد ایسے ہیں جو اپنی قوم کی تذلیل کرتے ہیں اور اسرائیل کی تعریف، فلسطینیوں ک...

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت میں فرق

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت  میں فرق کیا ہے ۔  تحریر :- خورشید امام ترجمہ:- شائستہ مسعود **************************************** یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرض :-  یعنی لازمی اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔ نفل :-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔  پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔ قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۔فرض:- لازمی ۔ نفل:- اختیاری فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔ ۔ واجب :ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہ...