Skip to main content

المناک واقعہ اور ایک بے بنیاد الزام

المناک واقعہ اور ایک بے بنیاد الزام

خورشید امام

-------------------------------------------------------------------------------

حصہ 1: حالیہ افسوسناک واقعہ اور سوشل میڈیا کا کردار

تعارف:

حالیہ قتل کے واقعے نے قوم کو گہرے دکھ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں عوام حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ انتہا پسند عناصر اس سانحے کو مذہبی نفرت پھیلانے، تقسیم پیدا کرنے اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

نفرت انگیز تقاریر، جان سے مارنے کی دھمکیاں، اور حملے آن لائن اور آف لائن دونوں جگہ پھیل رہے ہیں۔ حکومت، سول سوسائٹی، اور ذمہ دار شہریوں کو متحد ہو کر انصاف کی فراہمی اور مزید تشدد کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

1. حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار

a) فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات:
حکومت کو فوری اور غیر جانب دار تحقیقات یقینی بنانی چاہیے تاکہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

b) نفرت اور تشدد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی:
نفرت انگیز تقاریر اور دھمکیاں دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

c) قائدین کا واضح مذمتی بیان:
مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو تشدد اور نفرت کی کھلے عام مذمت کرنی چاہیے۔

d) میڈیا کی ذمہ داری:
میڈیا کو سنجیدگی کے ساتھ سچائی پر مبنی رپورٹنگ کرنی چاہیے، سنسنی خیزی اور افواہیں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔

e) سوشل میڈیا کی نگرانی:
حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو مل کر نفرت انگیز مواد اور تشدد کو فروغ دینے والی پوسٹس کو جلدی ہٹانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔


حصہ 2: مذہبی متون میں تشدد سے متعلق الزام کا جواب

حالیہ واقعات کے بعد، بعض لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ قرآن غیر مسلموں کے خلاف تشدد کی حمایت کرتا ہے، خاص طور پر سورہ توبہ (9:5) کا حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ اس آیت کا تاریخی پس منظر سمجھا جائے۔

سورہ توبہ (9:5) کا سیاق و سباق:

یہ آیت غیر مسلموں کے عام قتل کا حکم نہیں دیتی بلکہ ان مخصوص گروہوں کے خلاف ہے جنہوں نے عہد شکنی کی اور مسلمانوں پر مظالم ڈھائے۔

تاریخی پس منظر:

  • ابتدائی مسلمان شدید ظلم و ستم کا شکار تھے۔

  • مدینہ ہجرت کے بعد بھی حملے جاری رہے۔

  • حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔

آیت کا مفہوم:
"اور جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو..." (سورہ توبہ 9:5)

اصل پیغام:
یہ صرف معاہدہ شکنوں کے خلاف دفاعی کارروائی تھی، تمام غیر مسلموں کے خلاف نہیں۔


موجودہ دور کی مثال:

اگر پولیس چیف کہے، "دہشت گردوں کو جہاں پاؤ گرفتار کرو"، تو کوئی یہ کہے کہ "پولیس سب کو قتل کرنے والی ہے"، یہ سراسر غلط ہوگا۔

اسی طرح سورہ توبہ 9:5 کو بھی اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔


بھگوت گیتا اور مہابھارت میں تشدد کا تذکرہ

بھگوت گیتا – جنگ اور فرض:
کرشن ارجن سے کہتے ہیں:
"دھرم کے لیے لڑنا ایک سپاہی کا سب سے بڑا فرض ہے۔" (بھگوت گیتا 2.31)

"جب بھی دھرم کمزور ہو جائے، میں خود اوتار لیتا ہوں نیکی کو بچانے اور بدی کو مٹانے کے لیے۔" (بھگوت گیتا 4.7-8)

اصل پیغام:
نفرت یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں، بلکہ انصاف کے لیے جنگ۔


مہابھارت – آخری چارہ کار کے طور پر جنگ:
"جنگ آخری راستہ ہے اور یہ صرف عوام کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیے۔" (مہابھارت، شانتی پرو، باب 35)

اصل پیغام:
انصاف کے لیے، نفرت یا ذاتی انتقام کے لیے نہیں۔


اختتامیہ:

قرآن، بھگوت گیتا اور مہابھارت سبھی تشدد کو صرف آخری دفاعی حربے کے طور پر جائز قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی مذہبی صحیفے کو نفرت یا تشدد کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرنا سخت خطرناک اور گمراہ کن ہے۔


سوامی لکشمی شنکرآچاریہ جی کی سچائی کی تلاش:

سوامی لکشمی شنکرآچاریہ جی ابتدائی طور پر قرآن پر تنقید کرتے تھے۔ مگر جب انہوں نے نبی محمد (ص) کی سیرت اور قرآن کا بغور مطالعہ کیا، تو انہوں نے پایا کہ قرآن کا اصل پیغام امن، عدل اور انسانیت ہے۔

انہوں نے اپنی کتاب "اسلام – دہشت یا آئیڈیل" (Islam – Atank Ya Adarsh) میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

ہم سچائی کے متلاشیوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ اسلام کا حقیقی پرامن پیغام سمجھ سکیں۔

Comments

Popular posts from this blog

بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام

  بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام خورشید امام ********************************************* آج مسلم دنیا بدترین حالات سے گزر رہی ہے — انتشار، بے بسی، مایوسی اور مسلسل تکلیفیں۔ بھارت سے لے کر فلسطین تک مسلمان پریشان حال ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ؟ بے اختیاری ۔ دنیا میں جہاں طاقت ہی سب کچھ ہے، ہم پیچھے رہ گئے۔ جب طاقت حاصل کرنے کا وقت تھا، ہم دوسری باتوں میں الجھے رہے۔ تاریخ اسلام کی تین بڑی غلطیاں یہی تھیں: حدیث کو قرآن پر ترجیح دینا دین و دنیا کو الگ کرنا علماء کی حد سے زیادہ عقیدت ہم نے بار بار سنا: "تین قسم کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں..." لیکن کیا اربوں مسلمانوں کی دعاؤں نے غزہ کا قتل عام روک لیا؟ سوچیں! شاید ہمیں اسلام کا غلط نظریہ سکھایا گیا۔ یہ غلطیاں صدیوں سے ہمیں اندر سے کمزور کرتی آئی ہیں۔ اور آج بھی کچھ علماء انہی غیر اہم باتوں میں مصروف ہیں — خلفاء کی رینکنگ، ظاہری لباس، چھوٹے فقہی اختلافات — جب کہ امت کا حال برباد ہے۔ دوسری طرف کچھ "روشن خیال" افراد ایسے ہیں جو اپنی قوم کی تذلیل کرتے ہیں اور اسرائیل کی تعریف، فلسطینیوں ک...

بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات

  بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات خورشید امام ----------------------------------------------------------------- مذہبی کتابوں کا ترجمہ ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، جو مختلف قوموں کو ایک دوسرے کو سمجھنے یا حکومت چلانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ بھارت میں، مسلم حکمرانوں نے ہندو مذہبی کتابوں کو فارسی اور بعد میں اردو میں ترجمہ کروایا۔ ان تراجم پر الزام لگایا گیا کہ ان میں غلط بیانی کرکے ہندو مذہب کے عقائد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ مضمون ان الزامات کی حقیقت کو جانچتا ہے اور تاریخی حقائق کے ذریعے ثابت کرتا ہے کہ یہ تراجم بدنیتی پر مبنی نہیں تھے اور ہندو مذہب کی بنیادوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مذہبی کتابوں کے ترجمے کی تاریخی مثالیں 1. عباسی خلافت: یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ آٹھویں سے دسویں صدی کے دوران عباسی خلافت نے یونانی فلسفیانہ اور سائنسی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کروایا۔ بغداد کے "ہاؤس آف وزڈم" میں دانشوروں نے ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے کاموں کا ترجمہ کیا۔ مقصد علم کا فروغ تھا، نہ کہ مسخ کرنا۔ 2. رومن سلطنت: یونانی سے لاطینی میں ت...

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت میں فرق

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت  میں فرق کیا ہے ۔  تحریر :- خورشید امام ترجمہ:- شائستہ مسعود **************************************** یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرض :-  یعنی لازمی اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔ نفل :-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔  پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔ قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۔فرض:- لازمی ۔ نفل:- اختیاری فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔ ۔ واجب :ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہ...