Skip to main content

ہمیں اللّه سے ڈرنا چاہیے یا محبت کرنی چاہیے ۔۔؟

ہمیں اللّه سے ڈرنا چاہیے یا  محبت کرنی چاہیے ۔۔؟

سوال  : ہمیں اللّه سے ڈرنا چاہیے یا  محبت کرنی چاہیے ۔۔؟  مجھے اس پر یقین ہے کہ خوف خداکی اطاعت کی طرف پہلا قدم ہ


*************

جواب : عربی زبان کا لفظ "تقویٰ "عموما ً خوف کے نام سے غلط ترجمہ  کیا جاتا ہے ۔اصل لفظ "و, ق, ی" محبت کی علامات ہیں۔
خدا سے ہمیں اس طرح نہیں ڈرنا چاہیے جیسے ہم جانور ،شیطان ،یا برے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔

خدا سے ہمیں محبت کرنی چاہے۔

جب کسی کے لئے محبّت بہت حد تک بڑھ جاتی ہے تو پھر ایک خوف پیدا ہوتا ہے ، لیکن یہ خوف آپ کو جس سے پیار ہے اس کی نافرمانی سے روکتا ہے ۔
محبّت /خوف کے اس احساس کو تقویٰ کہتے ہیں جس کی قرآن مجید سفارش کرتا ہے ۔

قران (2:165) میں کہا گیا ہے کہ " ایمان والوں کو تو الله ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے 

اس کے ساتھ ہی قرآن مومنوں کو ترغیب دلاتا ہے 
عام طور پر جس کا ترجمہ صرف ایک ہی معنی میں   اللّه کے "ڈر "سے کیا جاتا ہے ۔
مہربانی کر کے ذہین نشیں کریں کہ عربی کے مختلف الفاظ مختلف معنیٰ رکھتے ہیں لیکن عام طور پر ان کا ترجمہ صرف ایک ہی معنی میں "ڈر "سے ہی کیا جاتا ہے ۔

اللّه سے ڈرنے کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جانور ،بھوت ،آگ ،پانی میں ڈوبنے کا ہے۔۔
یہ ڈر اللّه سے شدید محبّت کا نتیجہ ہے ۔

مومن کو خداکی نا فرمانی  کے خوف سے گناہوں سے بچنا چاہیے ۔

**************************

Comments

Popular posts from this blog

بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام

  بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام خورشید امام ********************************************* آج مسلم دنیا بدترین حالات سے گزر رہی ہے — انتشار، بے بسی، مایوسی اور مسلسل تکلیفیں۔ بھارت سے لے کر فلسطین تک مسلمان پریشان حال ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ؟ بے اختیاری ۔ دنیا میں جہاں طاقت ہی سب کچھ ہے، ہم پیچھے رہ گئے۔ جب طاقت حاصل کرنے کا وقت تھا، ہم دوسری باتوں میں الجھے رہے۔ تاریخ اسلام کی تین بڑی غلطیاں یہی تھیں: حدیث کو قرآن پر ترجیح دینا دین و دنیا کو الگ کرنا علماء کی حد سے زیادہ عقیدت ہم نے بار بار سنا: "تین قسم کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں..." لیکن کیا اربوں مسلمانوں کی دعاؤں نے غزہ کا قتل عام روک لیا؟ سوچیں! شاید ہمیں اسلام کا غلط نظریہ سکھایا گیا۔ یہ غلطیاں صدیوں سے ہمیں اندر سے کمزور کرتی آئی ہیں۔ اور آج بھی کچھ علماء انہی غیر اہم باتوں میں مصروف ہیں — خلفاء کی رینکنگ، ظاہری لباس، چھوٹے فقہی اختلافات — جب کہ امت کا حال برباد ہے۔ دوسری طرف کچھ "روشن خیال" افراد ایسے ہیں جو اپنی قوم کی تذلیل کرتے ہیں اور اسرائیل کی تعریف، فلسطینیوں ک...

بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات

  بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات خورشید امام ----------------------------------------------------------------- مذہبی کتابوں کا ترجمہ ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، جو مختلف قوموں کو ایک دوسرے کو سمجھنے یا حکومت چلانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ بھارت میں، مسلم حکمرانوں نے ہندو مذہبی کتابوں کو فارسی اور بعد میں اردو میں ترجمہ کروایا۔ ان تراجم پر الزام لگایا گیا کہ ان میں غلط بیانی کرکے ہندو مذہب کے عقائد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ مضمون ان الزامات کی حقیقت کو جانچتا ہے اور تاریخی حقائق کے ذریعے ثابت کرتا ہے کہ یہ تراجم بدنیتی پر مبنی نہیں تھے اور ہندو مذہب کی بنیادوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مذہبی کتابوں کے ترجمے کی تاریخی مثالیں 1. عباسی خلافت: یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ آٹھویں سے دسویں صدی کے دوران عباسی خلافت نے یونانی فلسفیانہ اور سائنسی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کروایا۔ بغداد کے "ہاؤس آف وزڈم" میں دانشوروں نے ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے کاموں کا ترجمہ کیا۔ مقصد علم کا فروغ تھا، نہ کہ مسخ کرنا۔ 2. رومن سلطنت: یونانی سے لاطینی میں ت...

لفظ نماز کی اصل: سنسکرت یا فارسی؟

لفظ نماز کی اصل: سنسکرت یا فارسی؟  خُرشید امام ------------------------------------------ لفظ نماز نہ تو عربی زبان سے ہے اور نہ ہی سنسکرت زبان سے، بلکہ یہ فارسی زبان سے آیا ہے۔ یہ پہلوی دور کے الفاظ نماچ یا نماگ سے ماخوذ ہے، جن کا مطلب ہے: دعا، عبادت۔ کلاسیکی فارسی ادب میں یہ لفظ اسلامی عبادت کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال ہوا اور بعد میں اُردو، ترکی، ہندی، پشتو، کُردی اور وسطی ایشیائی زبانوں میں پھیل گیا۔ اس کے برعکس، عرب دنیا، ملائیشیا، انڈونیشیا اور افریقہ میں آج بھی صلٰوۃ یا اس کے مقامی طور پر ڈھالے گئے نام استعمال ہوتے ہیں، کبھی بھی نماز نہیں۔ غلط فہمیاں کچھ لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ نماز سنسکرت لفظ ہے کیونکہ یہ نمس کے مشابہ نظر آتا ہے۔ ۔ نماز سنسکرت کا لفظ نہیں ہے۔  وید، اُپنشد، درشن، پران، مہابھارت جیسے کسی   ہندو مذہبی متن میں لفظ "نماز" کا ذکر نہیں ملتا۔ ۔ کسی کلاسیکی ہندو عالم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ "نماز" سنسکرت لفظ ہے۔   سنسکرت لغت میں "نماز" کا وجود نہیں ہے ۔  اس کے برعکس ہر فارسی لغت میں "نماز" موجود ہے ۔ لغت ...