Skip to main content

اسلام پر بات کرنے کا حق کس کو ہے؟

آپ کس مدرسے سے فارغ ہیں؟

 خورشید امام 

--------------------------------------------------------------

مسئلہ:

آج کئی مسلم معاشروں میں ایک عام رویہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص جو کسی مدرسے میں باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتا، اسلام کے بارے میں بات کرتا ہے—خاص طور پر جب وہ غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے، اندھی روایات پر سوال اٹھاتا ہے، یا دین کی غلط تشریحات کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے—تو فوراً اس سے یہ سوالات کیے جاتے ہیں:

"کیا آپ عالم ہیں؟"
"کیا آپ نے کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے؟"
"آپ کو اسلام پر بات کرنے کا حق کس نے دیا؟"

اکثر ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ شخص کچھ غلط کہہ رہا ہوتا ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ ایسے بیانیوں کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے جو دین کی غلط یا محدود تشریح پر مبنی ہوتے ہیں۔
پھر کچھ مذہبی طبقے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ جب تک کسی کے پاس مدرسے کی ڈگری نہ ہو، وہ دین پر بات کرنے کے قابل نہیں—چاہے وہ شخص قرآن کی روشنی میں بات کر رہا ہو۔


حقیقت:

اسلام کسی مخصوص مدرسے یا طبقے کی جاگیر نہیں ہے۔

قرآن سب سے مخاطب ہوتا ہے:

"یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور عقلمند لوگ نصیحت حاصل کریں۔"
(سورۃ ص، آیت 29)

نبی ﷺ نے فرمایا:

"مجھ سے ایک آیت بھی ہو تو آگے پہنچاؤ۔"
(بخاری)

یہ حدیث یہ نہیں کہتی کہ "صرف عالم یا مدرسے کے فارغ التحصیل ہی بات کریں۔"
اسلام کو سمجھنا اور دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے—بس اخلاص اور صحیح علم کے ساتھ ہو۔

اگر کوئی شخص قرآن  کے دلائل کے ساتھ، نرمی اور عاجزی سے بات کر رہا ہو، اور دین کو توڑ مروڑ کر نہ پیش کر رہا ہو، تو اُسے بات کرنے کا پورا حق ہے۔

ہاں، دین میں بے علمی سے بولنا منع ہے، مگر یہ پابندی ان لوگوں پر بھی ہے جن کے پاس ڈگری ہو مگر وہ اپنی باتوں سے لوگوں کو گمراہ کریں، چاہے شہرت کے لیے ہو یا فرقہ واریت کے لیے۔


اصل سوال یہ ہونے چاہییں:

  1. کیا وہ شخص قرآن کی روشنی میں بات کر رہا ہے؟

  2. کیا بات علمی بنیاد پر ہے یا صرف جذباتی نعرہ بازی؟

  3. کیا وہ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے یا اندھی تقلید اور نفرت کی طرف لے جا رہا ہے؟


آگے بڑھنے کا راستہ:

  • جو لوگ دین کو اخلاص سے سیکھتے ہیں—چاہے مدرسے میں یا خود سے—ان سب کی عزت کریں۔

  • ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کریں جو دین پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں اور صرف ڈگری کو حقِ بات کی شرط سمجھتے ہیں۔

  • قرآن اور سنت سے براہِ راست تعلق کو اپنا حق سمجھیں، سچائی، عاجزی اور صحیح علم کی جستجو کے ساتھ۔


اسلام کو سمجھنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے سند نہیں، بلکہ اخلاص، علم اور سچائی کی ضرورت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام

  بے بس سے بااختیار بنو: امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام خورشید امام ********************************************* آج مسلم دنیا بدترین حالات سے گزر رہی ہے — انتشار، بے بسی، مایوسی اور مسلسل تکلیفیں۔ بھارت سے لے کر فلسطین تک مسلمان پریشان حال ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ؟ بے اختیاری ۔ دنیا میں جہاں طاقت ہی سب کچھ ہے، ہم پیچھے رہ گئے۔ جب طاقت حاصل کرنے کا وقت تھا، ہم دوسری باتوں میں الجھے رہے۔ تاریخ اسلام کی تین بڑی غلطیاں یہی تھیں: حدیث کو قرآن پر ترجیح دینا دین و دنیا کو الگ کرنا علماء کی حد سے زیادہ عقیدت ہم نے بار بار سنا: "تین قسم کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں..." لیکن کیا اربوں مسلمانوں کی دعاؤں نے غزہ کا قتل عام روک لیا؟ سوچیں! شاید ہمیں اسلام کا غلط نظریہ سکھایا گیا۔ یہ غلطیاں صدیوں سے ہمیں اندر سے کمزور کرتی آئی ہیں۔ اور آج بھی کچھ علماء انہی غیر اہم باتوں میں مصروف ہیں — خلفاء کی رینکنگ، ظاہری لباس، چھوٹے فقہی اختلافات — جب کہ امت کا حال برباد ہے۔ دوسری طرف کچھ "روشن خیال" افراد ایسے ہیں جو اپنی قوم کی تذلیل کرتے ہیں اور اسرائیل کی تعریف، فلسطینیوں ک...

بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات

  بھارتی مذہبی کتابوں کا اردو اور فارسی میں ترجمہ اور اس سے جڑے الزامات خورشید امام ----------------------------------------------------------------- مذہبی کتابوں کا ترجمہ ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، جو مختلف قوموں کو ایک دوسرے کو سمجھنے یا حکومت چلانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ بھارت میں، مسلم حکمرانوں نے ہندو مذہبی کتابوں کو فارسی اور بعد میں اردو میں ترجمہ کروایا۔ ان تراجم پر الزام لگایا گیا کہ ان میں غلط بیانی کرکے ہندو مذہب کے عقائد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ مضمون ان الزامات کی حقیقت کو جانچتا ہے اور تاریخی حقائق کے ذریعے ثابت کرتا ہے کہ یہ تراجم بدنیتی پر مبنی نہیں تھے اور ہندو مذہب کی بنیادوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مذہبی کتابوں کے ترجمے کی تاریخی مثالیں 1. عباسی خلافت: یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ آٹھویں سے دسویں صدی کے دوران عباسی خلافت نے یونانی فلسفیانہ اور سائنسی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کروایا۔ بغداد کے "ہاؤس آف وزڈم" میں دانشوروں نے ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے کاموں کا ترجمہ کیا۔ مقصد علم کا فروغ تھا، نہ کہ مسخ کرنا۔ 2. رومن سلطنت: یونانی سے لاطینی میں ت...

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت میں فرق

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت  میں فرق کیا ہے ۔  تحریر :- خورشید امام ترجمہ:- شائستہ مسعود **************************************** یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرض :-  یعنی لازمی اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔ نفل :-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔  پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔ قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۔فرض:- لازمی ۔ نفل:- اختیاری فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔ ۔ واجب :ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہ...