Skip to main content

برائی کو بھلائی سے دور کریں - قرآن 41:34: کیا یہ شرک اور کفر کے عمل کو منانا جاٸز قرار دیتا ہے؟

 برائی کو بھلائی سے دور کریں - قرآن 41:34: کیا یہ شرک اور کفر کے عمل کو منانا جاٸز قرار دیتا ہے؟

-----------------------------------------------------

ہم چند مسلمانوں کو شرک اور کفر کے تہواروں میں شامل ہوتے اور مناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اکثر، یہ تہوار افسانوی کرداروں میں اندھی عقیدت اور یقین کو فروغ دیتے ہیں۔ عموماً یہ تہوار معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ بحیثیت مومن، ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے اور غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ہم شرک، کفر اور اندھے عقیدے کو فروغ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ چیزیں بالآخر  معاشرے میں انتشار  پیدا کرتی ہیں۔


بدقسمتی سے، چند مسلمان ایسے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں اور مناتے ہیں۔ اس کی وجہ دین کی تعلیمات (اسلامی اصولوں) کے بارے میں ناواقفیت ہے۔ براہ کرم توجہ دیں - ہم ان تہواروں کی محض 'مبارک باد' کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم ایسے مواقع کو عملی طور پر منانے یا فروغ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ جب آپ اس طرح کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں، تو یہ اس طرح کی تقریبات کے پیچھے جو  عقیدہ ہوتا ہے، اس کی خاموشی سے منظوری دینے یا تصدیق کرنے کے برابر ہے۔


یہ مسلمان اپنے اعمال کو جاٸز قرار دینے کے لیے قرآن 41:34 کا حوالہ دیتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت سے جو اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ ایسی غیر دینی (غیر اسلامی) سرگرمیوں میں شامل ہو جاؤ تاکہ تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے۔


اگرچہ وہ لفظ بہ لفظ یہ بات زباں سے تو کہتے نہیں، لیکن ان کی ذہنیت اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے کہ قرآن ایسے تہواروں میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔


قرآن 41:34 کہتا ہے۔


آیت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اچھائی اور برائی برابر نہیں ہے، یعنی ہمیں اچھائی اور برائی میں فرق کرنا ہوگا۔ آپ انہیں  ضم نہیں کر سکتے.

پھر، یہ آیت بے بنیاد چیز کو دور کرنے / پیچھے ہٹانے / ڈیل کرنے کو کہہ رہی ہے۔ براہ مہربانی  توجہ دیں.

کہ یہ دور تک بھی اشارہ نہیں کر رہا ہے کہ ہمیں اس طرح کے بے بنیاد کاموں کا حصہ/ حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ آپ یا تو لوگوں کو سچائی سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں (آپ کی استطاعت / صلاحیت کی بنیاد پر)، لیکن آپ کسی بھی صورت میں اسے بڑھاوا دینے والے نہیں بن سکتے۔


غلط چیزوں کو کیسے ہٹانا / د ورکرناہے؟

یقیناً اسلامی طریقے سے۔ قرآن نے لفظ 'حسن' استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے 'متوازن اور بہتر طریقے سے'۔

 آپ غصے کی حالت میں جواب نہیں دے سکتے۔

 آپ اس طریقے سے جواب نہیں دے سکتے جو آپ کو ظالم بنا دے (وہ جو خدا کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے)۔

 آپ ' جیسے کو تیسا' کے فلسفے پر عمل نہیں کر سکتے۔

فتنہ یا فساد کا سہارا نہ لیں۔


بہترین مثال جس کا میں حوالہ دے سکتا ہوں وہ قرآن سے ہے 6:108۔ چاہے کوئی خدا کو گالی دے یا نہ دے، کسی بھی صورت میں آپ ان خداؤں کو گالی نہیں دے سکتے جن کی دوسرے لوگ پرستش کرتے ہیں۔ قرآن 41:34 کے حسن طریقہ کا عملی نفاذ 6:108 میں بیان کیا گیا ہے۔


ہمیں لڑنا / ٹکرانا نہیں ہے۔ ہمیں دوستانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ شاید وہ بھی مستقبل میں دوست نکلیں گے۔


براہ کرم توجہ دیں کہ اس آیت سے بالکل پہلے قرآن حسن طریقے سے لوگوں کو دین (اسلامی عقیدہ) کی طرف دعوت دینے کی بات کرتا ہے۔



لہذا اگر آپ قرآن 41:34 کو پچھلی آیت سے جوڑیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سیاق و سباق لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے کے بارے میں ہے نہ کہ ان کے ایمان میں شامل ہونے کے بارے میں۔


نتیجہ:

اسلام کو سمجھنا ہمیشہ اس توازن کو سمجھنا ہے جو قرآن نے دیا ہے۔

 اس میں ایک عمدہ توازن ہے جسے ہمیں برقرار رکھنا ہے: انہیں مثبت اور متوازن انداز میں ہدایت کی طرف دعوت دینا بمقابلہ دوستانہ انداز میں.


دورتک بھی یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہے کہ اللہ آپ کو ایک بے بنیاد راستے پر چلنے کو کہہ رہا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت میں فرق

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت  میں فرق کیا ہے ۔  تحریر :- خورشید امام ترجمہ:- شائستہ مسعود **************************************** یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرض :-  یعنی لازمی اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔ نفل :-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔  پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔ قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۔فرض:- لازمی ۔ نفل:- اختیاری فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔ ۔ واجب :ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہے ۔ سنّتِ مؤکّد ہ:۔ جس

مسجد میں بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا

 عام طور پر ہم دیکھتے ہیں لوگ بچوں کو مسجد میں لانے سے منع کرتے ہیں تاکہ وہ شرارتیں کرکے دوسروں کی نماز نہیں خراب کریں، اگر بچّے مسجد میں آ جاتے ہیں اور اگر اگلی صفوں میں کھڑے ہو گئے تو انہیں ڈانٹا جاتا ہے ، کان سے پکڑ کر پیچھے کیا جاتا ہے اور کہیں کہیں تو  ان پر ہاتھ بھی اٹھا دیا جاتا ہے۔ اسلام میں بچوں کے لئے صفوں کی ترتیب مخصوص نہیں ہے وہ جہاں چاہیں کھڑے ہو سکتے ہیں اور انہیں ہٹانا نہیں چاہئے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کی علیحدگی کے لئے بچوں کو بیچ میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ اب چونکہ مسجد میں عورتوں کیلے الگ سے جگہ کا اہتمام ہوتا ہے اسلیے بچوں کو  پیچھے کھڑا کرنا درست نہیں ہے۔ بچے جہاں کھڑے ہو جائیں انہیں وہاں سے ہٹانا نہیں چاہئے۔ اب ایک اور مسلہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگ بچہ سمجھتے کسکو ہیں۔ مسجدوں میں اکثر دیکھا جاتا کہ لوگ بالغ بچوں کو بھی صف میں پیچھے کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان پر نماز فرض ہو چکی ہوتی ہے اور انہیں ٹوکنے یا جھڑکنے سے  آپ انہیں فرض ادا کرنے سے روکنے والوں میں سے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مسجد میں بچوں کو لانا ان کی تر