Skip to main content

میں سائنس پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے دین یا خدا کی کیا ضرورت ہے؟

* میں سائنس پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے دین یا خدا کی کیا ضرورت ہے؟ ***************** ***

سائنس کا مضمون خدا کے قوانین کی دریافت سے متعلق ہے۔ فطرت کے قوانین انہی شرائط کے تحت نا قابل تبدیل ہیں۔ ہم ان قوانین پر جتنا زیادہ غور و فکر کرتے ہیں -تواتنی ہی بہتر چیزیں ہم انسانیت کیلے  لاتے ہیں۔

سائنس ہماری روز مرہ کی زندگی میں بے پناہ مدد کرتا ہے۔ ہماری الارم گھڑی سے لے کر صحت تک کی دوائیں۔ سبھی سائنس کے احاطہ میں ہیں۔

 بیک وقت میں ، سائنس کی اپنی حدود ہیں۔ سائنس سے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کی توقع کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔

سائنس کی فطرت ایسی ہے کہ وہ ہمیں جذباتی اور ذہنی طور پر بہتر انسان نہیں بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ، سائنس اخلاقی اقدار ، اخلاقیات یا معاشرتی سلوک کے بارے میں بات نہیں کرتی ہے۔ اس میں کسی کے والدین کی فرمانبرداری، کسی کی شریک حیات سے محبت کرنے ، بچوں کی دیکھ بھال کرنے یا کسی مسکین کی مدد کرنے کی بات نہیں کی جاتی ہے۔

اسی طرح ، سائنس کسی کے ضمیر کو نہیں جگاتی ہے اور ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچانے سے نہیں روکتی ہے۔

 جدید سائنس  کی تجربہ گاہ میں  ' جنسی استحصال کی روک تھام' کیلے HR policy پر کام جاری ہے ۔ تاہم ، سائنس نے کبھی ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ اخلاقی طور پر صحیح جنسی سلوک کیا ہے!

اگرچہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں سائنس کی بہت زیادہ ضرورت ہے ، لیکن اس سے ہمارے وجود کے بڑے تناظر کا احاطہ نہیں ہوتا ہے جیسے:

ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

 کون سے اقدامات فائدہ مند ہیں اور کون سے اقدامات نقصان دہ ہیں
غربت ، منشیات کی لت  ،عصمت دری , ڈکیتی ، قتل وغیرہ سے نجات کے لئے کون سے قوانین نافذ کرنے چاہیں؟
 زندگی اور معاشرے میں 'امن' کیسے حاصل کیا جائے؟

سائنس ان سےمتعلقہ سوالوں کے جواب نہیں دیتی ہے۔

لہذا ، ہمیں ایک ایسے ذات کی ضرورت ہے جو ہمارے علم کی اساس کے طور پر سائنس سے کہیں زیادہ بڑے خیال وعمل کا احاطہ کرے۔ اور وہ ہے 'اللہ تعالیٰ کی رہنمائی '۔

ہمیں اس کی رہنمائی کی ضرورت ہے جس نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا ہے ، کوئی ایسا  جو سب سے بہتر جانتا ہو کہ انسانیت کے لئےمجموعی طور پر کیا اچھا ہےاور کیا برا ہے ،کوی ایسا جو غیر جانبدار ہے۔

* خدا کی ہدایت پر عمل کرنا خدا کا دین کہلاتا ہے۔ *

اور یہ ہدایت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کے تخلیق کردہ قوانین اور معاملہ پر غور کریں اور ان کو اپنے اور معاشرتی بھلائی کے لئے استعمال کرے۔

Comments

Popular posts from this blog

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت میں فرق

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت  میں فرق کیا ہے ۔  تحریر :- خورشید امام ترجمہ:- شائستہ مسعود **************************************** یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرض :-  یعنی لازمی اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔ نفل :-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔  پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔ قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۔فرض:- لازمی ۔ نفل:- اختیاری فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔ ۔ واجب :ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہے ۔ سنّتِ مؤکّد ہ:۔ جس

برائی کو بھلائی سے دور کریں - قرآن 41:34: کیا یہ شرک اور کفر کے عمل کو منانا جاٸز قرار دیتا ہے؟

 برائی کو بھلائی سے دور کریں - قرآن 41:34: کیا یہ شرک اور کفر کے عمل کو منانا جاٸز قرار دیتا ہے؟ ----------------------------------------------------- ہم چند مسلمانوں کو شرک اور کفر کے تہواروں میں شامل ہوتے اور مناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اکثر، یہ تہوار افسانوی کرداروں میں اندھی عقیدت اور یقین کو فروغ دیتے ہیں۔ عموماً یہ تہوار معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ بحیثیت مومن، ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے اور غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ہم شرک، کفر اور اندھے عقیدے کو فروغ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ چیزیں بالآخر  معاشرے میں انتشار  پیدا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے، چند مسلمان ایسے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں اور مناتے ہیں۔ اس کی وجہ دین کی تعلیمات (اسلامی اصولوں) کے بارے میں ناواقفیت ہے۔ براہ کرم توجہ دیں - ہم ان تہواروں کی محض 'مبارک باد' کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم ایسے مواقع کو عملی طور پر منانے یا فروغ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ جب آپ اس طرح کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں، تو یہ اس طرح کی تقریبات کے پیچھے جو  عقیدہ ہوتا ہے، اس کی خاموشی سے منظوری دینے یا تصدیق کرنے کے برابر ہے۔ یہ مسلمان اپنے اعمال کو ج

مسجد میں بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا

 عام طور پر ہم دیکھتے ہیں لوگ بچوں کو مسجد میں لانے سے منع کرتے ہیں تاکہ وہ شرارتیں کرکے دوسروں کی نماز نہیں خراب کریں، اگر بچّے مسجد میں آ جاتے ہیں اور اگر اگلی صفوں میں کھڑے ہو گئے تو انہیں ڈانٹا جاتا ہے ، کان سے پکڑ کر پیچھے کیا جاتا ہے اور کہیں کہیں تو  ان پر ہاتھ بھی اٹھا دیا جاتا ہے۔ اسلام میں بچوں کے لئے صفوں کی ترتیب مخصوص نہیں ہے وہ جہاں چاہیں کھڑے ہو سکتے ہیں اور انہیں ہٹانا نہیں چاہئے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کی علیحدگی کے لئے بچوں کو بیچ میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ اب چونکہ مسجد میں عورتوں کیلے الگ سے جگہ کا اہتمام ہوتا ہے اسلیے بچوں کو  پیچھے کھڑا کرنا درست نہیں ہے۔ بچے جہاں کھڑے ہو جائیں انہیں وہاں سے ہٹانا نہیں چاہئے۔ اب ایک اور مسلہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگ بچہ سمجھتے کسکو ہیں۔ مسجدوں میں اکثر دیکھا جاتا کہ لوگ بالغ بچوں کو بھی صف میں پیچھے کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان پر نماز فرض ہو چکی ہوتی ہے اور انہیں ٹوکنے یا جھڑکنے سے  آپ انہیں فرض ادا کرنے سے روکنے والوں میں سے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مسجد میں بچوں کو لانا ان کی تر