Skip to main content

اسلام میں جنگ و جہاد

اسلام میں جنگ و جہاد  

والد - "البرڈ !  باہر مت جانا ۔بہت تیز بارش ہو رہی ہے ۔"


اوہ !لہٰذا البرڈ کے والد نے کہا "باہر کھیلنے کے لئے مت جانا "۔اس کا مطلب ہے کہ  اس کے والد نے البرڈ کو کھیلنے کے لئے ہمیشہ کے لئے منع کر چکے ۔اس کا مطلب ہے کہ البرڈ کبھی نہیں کھیل سکتا کیوں کہ اس کے والد کا حکم ہے ۔


‌بھائیوں :میرے غلط نتیجہ پر غصّہ مت ہونا ۔آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ میں مثلہ کے  حالات،پس منظر اور ماحول کو نظر انداز کرتے ہویے نتیجہ اخذ کر رہا ہوں لہٰذا میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ غلط ہے ۔صحیح نتیجہ اس طرح ہونا چاہیے _"البرڈ کے والد نے اسےبارش میں  باہر کھیلنے سے منع کیا (اس لئے کہ وہ بیمار نا ہوجاے )۔عام دنوں میں وہ باہر کھیل سکتا ہے ۔"

اسی طرح کسی بھی مسلے کے حالات میں اسلام دہشت گردی اوراس کے بڑھاوے کی معمانت کرتا ہے ۔لہٰذا تو چلیں اس مضمون پر غیر شعوری طور پر نظر ڈالتے ہیں اور الفاظوں پر اعتماد کرتے ہیں برخلاف اس کے کہ جو بھی ہم نے مسلے کے پس منظر سے سکھا ۔


الف _اسلام کا مطلب امن وسلامتی ہے ۔

اسلام یہ عربی لفظ سلام سے مشتق ہے جو کہ اللّه کا دین ہے ۔اللّه تعالیٰ نے انسانیت کو مختلف وحی کے ذریعے ھدایت دی ۔اور اس میں قرآن آخری کتاب ہے ۔وہ شخص جو اللّه کے دین کی پیروی کرتا ہے عربی زبان میں اسے مسلم کہتے ہیں ۔اسلام کا حقیقی مقصدامن و سلامتی پھیلانا ہے ۔اسلام نا صرف سلامتی پھیلاتا ہے بلکہ  حدود متعین کرتا ہے اور اعتدال بھی کرتا ہے ۔اسلام کا اصل مقصد ظلم و جبر ،سختی اور فریب سازی کو جڑھ  سے ختم کرنا ہے ۔عام طور پر مختلف وجوہات کے بنا پر لوگ اسلام کو غلط تصور کرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی پھیلاتا ہے ۔


ب - یقین کرنے یا نا کرنے کی اسلام پوری طرح سے اجازت دیتا ہے ۔


اسلام میں ہر فرد کو اختیار ہے کہ وہ اللّه کی ھدایت کا انکار یا اقرار کرے ۔اسلام یقین کرنے کے لئے جبر نہیں کرتا ۔

"۔۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔۔۔قرآن :(سورہٴ 2: آیت 256)


"کہہ دو :(یہی )حق ہے آپ سب کے رب کی طرف سے ۔

جو یقین کرنا چاہے وہ یقین کرے , جو یقین کرنا نا چاہے نہ کرے ۔۔۔"(قرآن :سورہٴ ۔73 آیت ۔19) 


لہٰذا اسلام میں خطعی کوئی جبر نہیں ۔کسی کو یقین کرنے پر مجبور کرنا اسلام کے خلاف ہے ۔


ج - زندگی اٹل (قابل تعظیم )ہے - معصوم کا قتل جرم ہے اور یہ انسانیت کے خلاف ہے ۔

اسلام یا اسلامی گھر میں انسان کی زندگی کو انتہای  قابل تعظیم مانا جاتا ہے ۔ایک معصوم کی جان لینا انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔

"۔۔۔اگر کسی نے کسی کو ناحق قتل کیا اور (یا )زمین میں فساد برپا کیا - تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا ، اگر کوئی شخص کسی شخص کی جان بچاتا ہے تو ،یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا ۔"(قرآن :سورہٴ 5 ، آیت 32) 


د -  اسلامی گھر میں جہاد 


اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے ۔یہ روز مرّا کی کچھ رسومات  کا نام نہیں ہے ۔یہ زندگی کے تمام پہلوں جیسے  ،روحانی ،جذباتی ،شخصیتی ،معاشی اور سماجی کا احاطہ کرتا ہے ۔ کچھ حالات میں معاشرے میں امن و سلامتی کوقائم کرنے اور  برقرار رکھنے کے لئے سختی لازمی ہو جاتی ہے ۔اسی لیے ہمارے پاس آرمی ،پولس کا نظام ،عدالت قانون ،جیل ،سزا وغیرہ موجود ہے ۔اگر ہم غلط چیزوں کی روک تھام اور ظلم و زبردستی کاخاتمہ نہ کریں تو یہ انسانیت کی زندگی کے لیے وبال بن جاے گا ۔

     ہر کوئی سکون کی زندگی گزارنے اور اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے غلط کام کرتے ہیں ۔قتل گری ،چوری چکاری ،لوٹ مار ،کسی ملک پر چڑھای یا مداخلت کرنا یہ جرم انسانیت کے ذریعے کئے جاتے ہیں ۔لہٰذا اس کا حل کیا ہے ۔؟اگر ہم ان سب کو نہ روکیں تو یہی حالات برقرار رہیں گے ۔انسان کی زندگی قابل تعظیم ہے ،اسے بچانا ضروری ہے ۔

ہم اس دور میں دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ممالک ،ضلعے آپس میں تیل،سونا ،قدرتی گیس ،رہائش ،وسعت پانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں ۔لیکن اسلامی نظام میں صرف 3 حالات میں جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔


حالات  1 ۔دفعای جنگ 


اگر کوئی مظلوم ہے تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا ے یا جنگ کرے ۔اسلام اس کی پوری طرح سے اجازت دیتا ہے ۔ایسے حالات میں جنگ کی اجازت ہے ۔ایسے حالات میں کوئی بھی ملک مدافعتی جنگ کر سکتا ہے ۔اس جنگ کا مقصد ظلم و زبردستی کو روکنا اور امن و سلامتی کو قائم کرنا ہے ۔ 


"جن  (مسلمان ) سے جنگ کی جا رہی ہے انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں ۔۔۔"

(قرآن : سورہٴ 22،  آیت 39) 


حالات  2 . نا گوار حالات میں جنگ و جہاد 


اگر کس علاقے پر حملہ ہو ،قتل و غارت گری ،جبر ظلم و زبر دستی اس طرح کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔اس جنگ کا مقصد بھی سلامتی کا فروغ اور عدل و انصاف ہے ۔


"بھلا کیا وجہہ ہے کہ تم اللّه کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں اور عورتوں ،چھوٹے چھوٹے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو ۔؟  جو یوں دعایں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردیگار ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔

(قرآن : سورہٴ ،4  . ۔آیت 75) 


حالات  3 . (آیندہ )مستقبل کے ہنگامہ کے خلاف جنگ و جہاد   


اگر کسی اسلامی حکومت کا کسی دوسری حکومت کے ساتھ امن کا معاہدہ ہے اگر مخالف حکومت کی جانب سے یہ معاہدہ دہشت گردی کرنے کی نیت سے توڑ دیا جائے تو ان حالات میں جنگ کی اجازت ہے ۔ 


قرآن ،سورہٴ نمبر 9 کی ابتدا میں ان حالات کا ذکر کیا گیا ہے ۔


مزکورہ بالا منظر نامے وہ واحد حالات ہیں جن میں جنگ کی اجازت ہے اور کوئی بھی انصاف پسند اور پر امن قوم اس بات پر متفق ہوگی کہ ان حالات میں جنگ لازمی ہے ۔ 

اسی طرح کے پروٹوکول کی پیروی آج کل کے ممالک کرتے ہیں جس میں وہ فوج ،اسلحہ ،سامان ،سرحدوں  کی حفاظت وغیرہ کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن ، جو چیز اسلامی نظام کو دوسرے نظام سے ممتاز کرتی ہے وہ حیران کن ہے ۔ اگے پڑھے :



اگرچہ جنگ ناپسند ہے ،لیکن یہ صرف امن قائم کرنے کے لئے غیر معمولی حالات میں اجازت ہے ۔لیکن یہ اختتام نہیں ہے ۔جنگ میں بہت سارے حدود و ممانعت اور  اعتیدال ہے ۔


1 ۔ جنگ کے دوران صرف ان لوگوں پر حملہ کرنے کی اجازت ہے جو جنگ میں لڑ رہے ہیں ۔


2 ۔ کوئی عورتوں ،بچوں اور بزرگوں پر حملہ نہیں کر سکتا ۔


3 ۔ مذہبی مقامات کو تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔


4 ۔ درختوں کو جلایا نہیں جا سکتا اور جانوروں کو تکلف نہیں دی جا سکتی ۔


5 ۔ اگر مخالفین امن پیش کرتے ہیں (اگر چہ وہ امن نہیں چاہتے ہیں، لیکن وہ صرف وقت چاہتے ہیں تو آپ کو بھی امن کا سہارہ لینا چاہیے )پھر جنگ کو روکنا چاہیے ۔


6 ۔ اگر دوشمن پناہ چاہتا ہے تو پھر انہیں حفاظت کی جگہ لے لے تاکہ انہیں نقصان نہ پہنچے ۔


7 ۔ قرآن مجید میں بہت سارے حوالے موجود ہیں جہاں اللّه تعالیٰ بار بار حکم فرماتے ہیں کہ کسی کو بھی جنگ کے دوران حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ۔مطلب یہ ہے کہ جنگ کا مقصد ظلم کو روکنا اور صرف امن قائم کرنا ہے ۔

آج کونسا ملک مندرجہ بالا 7پروٹوکول کو اپناتا ہے ۔۔؟


اہم نوٹ  : کچھ لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر قرآن مجید کی آیت کا حالات اور منصوبے کی وضاحت کے بغیر حوالہ دیتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی یا  ناپسنددیدہ تشدد کو فروغ دیتا ہے ۔

اسی طرح کے تمام آیات جنگ کی 3 اقسام میں سے ایک کے تحت آتے ہیں جیسا کے اپر ذکر کیا گیا ہے ۔

اگر آپ میرے الفاظ کی توسیق کرنا چاہتے ہیں تو سیاق و سباق سے ہٹ کر آیات سے پہلے اور بعد میں صرف 10 آیات پڑھیں ۔

سیاق و سباق سے ہٹ کر لوگ غلط نتیجے پر پہنچتے ہیں جیسے کہ میں شروع میں پہنچا ، البرٹ کے والد کی ھدایت کے بارے میں ۔


ر ۔  نتیجہ 


 ۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بھی حالات کے مختلف غلط نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔


 ۔ اسلام کا مقصد امن اور انصاف کا فروغ اور قیام ہے ۔


 ۔  اسلام کو پھیلانے کے لئے طاقت کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ۔


 ۔ اسلام زندگی کو انتہائی مقدس سمجھتا ہے ۔ایک بے گناہ کا قتل  انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔


 ۔ ظلم ،استبداد اور قتل و غارت کو روکنے اور امن و انصاف کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے صرف غیر معمولی صورت حال میں اسلام میں جنگ کی اجازت ہے ۔

***************

Comments

Popular posts from this blog

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت میں فرق

فرض ‘ سنّت اور نفل عبادت  میں فرق کیا ہے ۔  تحریر :- خورشید امام ترجمہ:- شائستہ مسعود **************************************** یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں کسی بھی عمل یا عبادت کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فرض :-  یعنی لازمی اگر فرض عبادت /عمل چھوٹ گیا تو گنہ گار ہوں گے۔ نفل :-  یعنی اختیاری۔ اگر نفلی عبادت/یا کام کیا گیا تو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ مگر چھوڑ دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہو گا۔  پیغمبر محمّد ﷺ نے نماز یا کسی بھی عمل کو واجب۔ سنّت مؤکّدہ و غیر مؤکّدہ۔ یا مندوب و مستحبّات میں تقسیم نہیں کیا اور نہ کوئی درجہ بندی کی۔ یہ اصطلاحیں محمّد ﷺ کے زمانے میں استعمال نہیں ہوئِیں۔ یہ اصطلاحیں بعد کے زمانے میں فقھاء نے عوام النّاس کو سمجھانے کے لئے ایجاد کیں۔ قرآن کے نظریے اور محمّد ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھ کر کسی بھی عمل کو صرف دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۔فرض:- لازمی ۔ نفل:- اختیاری فقھاء نے بعد میں نوافل کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے :۔ ۔ واجب :ـ یہ وہ عبادت جسے محمّد ﷺ نے اکثریت سے کیا ہے ۔ سنّتِ مؤکّد ہ:۔ جس

برائی کو بھلائی سے دور کریں - قرآن 41:34: کیا یہ شرک اور کفر کے عمل کو منانا جاٸز قرار دیتا ہے؟

 برائی کو بھلائی سے دور کریں - قرآن 41:34: کیا یہ شرک اور کفر کے عمل کو منانا جاٸز قرار دیتا ہے؟ ----------------------------------------------------- ہم چند مسلمانوں کو شرک اور کفر کے تہواروں میں شامل ہوتے اور مناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اکثر، یہ تہوار افسانوی کرداروں میں اندھی عقیدت اور یقین کو فروغ دیتے ہیں۔ عموماً یہ تہوار معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ بحیثیت مومن، ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے اور غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ہم شرک، کفر اور اندھے عقیدے کو فروغ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ چیزیں بالآخر  معاشرے میں انتشار  پیدا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے، چند مسلمان ایسے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں اور مناتے ہیں۔ اس کی وجہ دین کی تعلیمات (اسلامی اصولوں) کے بارے میں ناواقفیت ہے۔ براہ کرم توجہ دیں - ہم ان تہواروں کی محض 'مبارک باد' کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم ایسے مواقع کو عملی طور پر منانے یا فروغ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ جب آپ اس طرح کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں، تو یہ اس طرح کی تقریبات کے پیچھے جو  عقیدہ ہوتا ہے، اس کی خاموشی سے منظوری دینے یا تصدیق کرنے کے برابر ہے۔ یہ مسلمان اپنے اعمال کو ج

مسجد میں بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا

 عام طور پر ہم دیکھتے ہیں لوگ بچوں کو مسجد میں لانے سے منع کرتے ہیں تاکہ وہ شرارتیں کرکے دوسروں کی نماز نہیں خراب کریں، اگر بچّے مسجد میں آ جاتے ہیں اور اگر اگلی صفوں میں کھڑے ہو گئے تو انہیں ڈانٹا جاتا ہے ، کان سے پکڑ کر پیچھے کیا جاتا ہے اور کہیں کہیں تو  ان پر ہاتھ بھی اٹھا دیا جاتا ہے۔ اسلام میں بچوں کے لئے صفوں کی ترتیب مخصوص نہیں ہے وہ جہاں چاہیں کھڑے ہو سکتے ہیں اور انہیں ہٹانا نہیں چاہئے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کی علیحدگی کے لئے بچوں کو بیچ میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ اب چونکہ مسجد میں عورتوں کیلے الگ سے جگہ کا اہتمام ہوتا ہے اسلیے بچوں کو  پیچھے کھڑا کرنا درست نہیں ہے۔ بچے جہاں کھڑے ہو جائیں انہیں وہاں سے ہٹانا نہیں چاہئے۔ اب ایک اور مسلہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگ بچہ سمجھتے کسکو ہیں۔ مسجدوں میں اکثر دیکھا جاتا کہ لوگ بالغ بچوں کو بھی صف میں پیچھے کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان پر نماز فرض ہو چکی ہوتی ہے اور انہیں ٹوکنے یا جھڑکنے سے  آپ انہیں فرض ادا کرنے سے روکنے والوں میں سے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مسجد میں بچوں کو لانا ان کی تر